جیو گروپ کا ستارہ آج کل گردش میں آیا ہوا ہے اور پاکستان بھر میں اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خصوصاً اس گروپ کے سینئر صحافی جناب حامد میر پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد سے جس میں بغیر کسی ثبوت کے فوج کے ادارے آئی۔ایس۔آئی اور اس کے سربراہ کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھرایا گیا۔ میں اس حساس موضوع پر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس بات کو واضح کرتا چلوں کہ میرا تجزیہ بالکل منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہے۔
جیو ٹی وی بلا شبہ پاکستان کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل ہے اور پاکستان میں اس ٹی وی نے بہت سی اچھی باتوں کی بنیاد ڈالی۔ اگر ہم دیکھیں تو جیو کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے جمہوریت کو سپورٹ کیااور جنرل پرویز مشرف کے خلاف چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کا ساتھ دیا۔ پاکستان کے باقی پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے بھی اسی روش کا مظاہرہ کیا۔ جیو کے پروگرام “کیپیٹل ٹاک” اور “آج کامران خان کے ساتھ” میں ہمیشہ حکومت وقت کی خامیوں اور کوتاہیوں پر بغیر ڈرے تنقید کی گئی اور تمام معروف سیاسی لیڈروں کو بولنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔
جہاں جیو کو ان باتوں کا کریڈٹ جاتا ہے وہیں اس گروپ نے چند بہت بڑی غلطیاں بھی کیں جو کہ پاکستان سے غداری کے مترادف ہیں۔ جیو نے ممبئی حملوں میں حکومتی موقف کے برخلاف اجمل قصاب کو پاکستانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اسی طرح جیو نے انڈین پریمیئر لیگ کو نشر کیا جبکہ انہوں نے پاکستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کو اپنے ہاں کھیلنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جیو ٹی وی نے بھارتی ایوارڈز کو نشر کرنے کا سلسہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ بھارت میں جیو اور دیگر پاکستانی چینلوں کو نشر کرے کی اجازت تک نہیں۔
ڈاکٹر عامر لیاقت کا معاملہ بھی ایسا ہے جس نے جیو کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ جیو نے ڈاکٹر عامر کی خفیہ وڈیو نشر کر دی جس میں وہ آف کیمرہ غیر مہذب گفتگو کر رہے تھے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ڈاکٹر عامر نے ایک دوسرے میڈیا گروپ کو جوائن کر لیا تھا۔ ڈاکٹر عامر کی ساکھ خراب کرنے کے بعد جیو نے پھر انہیں اپنے ہاں بہت اچھے عہدے پر رکھ لیا اور اپنے اخبار جنگ کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کو بتانا شروع کر دیا کہ ڈاکٹر عامر کا شمار دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں میں ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں آئی۔ایس۔آی کی طرف۔ یہ ملکی سلامتی کے حوالے سے ایک بے حد اہم ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لئے پاک فوج کے انتہائی ذہین اور قابل لیفٹنینٹ جنرل کو چنا جاتا ہے۔ یہ ادارہ خفیہ طور پر ملکی سلامتی کے لئے کام کرتا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی اس ادارے کا بے حد احترام کرتا ہے اور کبھی بھی اس کے خلاف بولنے کا نہیں سوچ سکتا۔ بھارت کو آئی۔ایس۔آئی کی وجہ سے ہی ہمارے ملک میں پوری طرح کھل کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا آج تک۔
تاہم معذرت کے ساتھ اس ادارے نے بھی کچھ ایسے کام کئے ہیں جس سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ سب سے پہلے اگر ہم لاپتہ افراد کا معاملہ دیکھیں تو اس نے اس معتبر ادارے کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں شریف لوگوں کو، جن پر کوئی الزام نہیں، اٹھا کر نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے اور یا پھر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا جس کا اقرار سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کر چکے ہیں۔ ان کے لواحقین پر قیامت ٹوٹ گئی ہے کہ وہ جانتے تک نہیں کہ ان کے اٹھائے گئے عزیز زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ اسی طرح اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور امریکی فورسز کے آپریشن نے بھی اس ادارے کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ اس متنازعہ آپریشن کی تحقیقات سے قوم کو آج تک مطلع نہیں کیا گیا۔
جیو کے الزامات کے بعد فوج، حکومت اور جیو گروپ کے درمیان حالات کافی کشیدہ ہو گئے ہیں اور پاکستانی قوم بھی اضطراب کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی جنگ اور جیو ہر انتخابات میں دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر دیا ہے اور ان کے بائیکاٹ کو اعلان کر دیا ہے۔ جیو کے خلاف حکومت نے پمرا (پاکستان میڈیا ریگولیشنز اتھارٹی) سے رجوع کر لیا ہے اور اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ جیو کا کہنا ہے کہ اسے پمرا سے انصاف کی توقع نہیں۔
میری رائے میں پاک فوج کو آئی۔ایس۔آئی کے اقدامات کی قوم کو وضاحت پیش کرنی چاہئیے اور لاپتہ افراد کے بارے میں ان کے گھر والوں کو آگاہ کرنا چاہئیے۔ اگر ان لوگوں کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے کیونکہ آئی۔ایس۔آئی مسلسل توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہے، جس سے عوام میں پاک فوج کا تاثر خراب ہو رہا ہے جو ملکی سلامتی کے لئے کوئی اچھا شگن نہیں۔ دوسری طرف جیو گروپ کے خلاف بھی موثر کاروائی ہونی چاہئیے تاکہ یہ ادارہ اپنی اصلاح کر سکے اور پاکستان کے مفادات کے خلاف پروگرام نشر کرنے سے باز آئے اور بھارتی ثقافت اور پروگراموں کو فروغ دینے سے پرہیز کرے۔